ابھی پرسوں کراچی سے واپسی ہوئی‘ وہاں جگہ جگہ کوڑا اور گندگی‘ ہر شخص کا شکوہ تھاکہ موجودہ حکومت اور سابقہ حکومت نے صفائی کی طرف توجہ نہیں کی اور کوڑے اور گندگی کا ڈھیر لگا ہوا ہے‘ لیکن یہ باتیں مجھے ہضم نہ ہوئیں‘ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ صفائی ہر شخص کی ذاتی ذمہ داری ہے اور جس طرح اپنے گھر کی صفائی‘ اسی طرح گلیوں کوچہ و بازار کی صفائی بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ مجھے کئی لوگوں نے بتایا کہ ہم نے دیکھا کہ یورپ میں گورے کتوں کو ساتھ لے کر پھررہے ہوتے ہیں۔ کتے نے جہاں پاخانہ کیا اسے تسلی سے کرنے دیا‘ ان کے پاس شاپر ہوتا ہے‘ اس سے پاخانہ اٹھایا اور کوڑا دان میں ڈال دیا اور ٹشو سے جگہ صاف کی۔ اگر کتا میرا ہے اس کی صفائی کی ذمہ داری بھی میری ہے۔ کتا تو میرا ہوا صفائی کی ذمہ داری حکومت کی ہو‘ کیسی عجیب بات ہے!۔ یہ ہماری غلطی ہے اور ہمیں اپنی اس غلطی کو ماننا پڑے گا جبکہ ہر شخص یہ کہتا ہے کہ صفائی کی ذمہ داری حکومت کی ہے۔ ایسا ہرگز نہیں! اپنے گھر کو صاف کیا اور گھر کی گندگی اپنے دروازے کے سامنے پھینک دی۔ میرے خیال میں یہ اخلاق اور شرافت سے بہت گری ہوئی چیز ہے‘ میرا وطن ہے! مجھے اپنے وطن کو خود صاف کرنا ہے‘ میری گلی ہے‘ میرا گھر ہے‘ میری سڑکیں ہیں‘ میرے بازار ہیں اور میں نے ہی اس کو صاف رکھنا ہے۔ اپنی ذمہ داری جب تک ہمارے اندر سوفیصد نہیں آئے گی ہم سوفیصد ایک صحت مند اور ذمہ دار شہری نہیں بن سکتے۔ دور نبوی ﷺ کا سچاعکس ہمارے سامنے ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ اور آپ ﷺ کی جماعت صفائی کو کتنا پسند کرتی تھی‘ مزاج نبوت ﷺ میں سب سے پہلی چیز ایمان ہے اور ایمان کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے اس سے بڑی اہمیت کیا ہو کہ صفائی کو نصف ایمان کا درجہ دیا گیا ہے اور صفائی نصف ایمان ہی ہے۔ نبوی ﷺ دور کا معاشرہ صحت مند معاشرہ تھا‘ جہاں غذائیں سادہ وہاں صفائی کا اہتمام اور میرے آقاﷺ نے صفائی کو بہت زیادہ توجہ اور اہمیت دی۔ کیا ہم نے گندگی کو سادگی کا نام دے دیا؟ سادگی میں کچا گھر‘ کچا مکان‘ کچی گلی ہے ‘پیوند لگے پھٹے پرانے کپڑے لیکن صاف ستھرے ‘وہ گھر بھی صاف ستھرے‘ گلیاں بھی صاف ستھری‘ وہ جسم بھی صاف ستھرے اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے جسم صاف ستھرے ہوں ‘ہماری گلیاں صاف ستھری ہوں تو جس طرح اپنے جسم کی صفائی پر توجہ دیتے ہیں اسی طرح اپنی گلیوں کی صفائی پر بھی توجہ دیں۔ ایک صاحب کہنے لگے کہ میں سعودی عرب کمانے کے لیے گیا‘ روزی نہ لگی‘ ایک سڑک پر کھڑا ہوگیا ایک سعودی آیا‘ گاڑی سے سرباہر نکال کر کہنے لگا: کام کرو گے‘ میں نے کہا جی کروں گا‘ کہنے لگا: کیا کرو گے؟ میں نے جواب دیا: جو کہیں گےکروں گا‘ کہنے لگا:گاڑی میں بیٹھ جا۔ مجھ سے سارے گھر کی صفائی کروائی اور آخر میں کہنے لگا میرے گٹر بند ہیں‘ میں نے بازو اوپر چڑھایا شاپر کے بغیر بازو گٹر کے پائپ میں ڈالا‘ اندر سے کچھ کپڑے‘ کچھ پیمپر اور کچھ اور چیزیں نکلیں۔ وہ حیرت سے دیکھ رہا تھا اور کوڑے کی بالٹی میں نے اس سارے ملبے سے بھر دی‘ اس کے گھر کو صاف ستھرا کردیا‘ اس نے میری خدمت کو دیکھا مجھ سے کہنے لگا میرے پاس مستقل نوکری کرو گے۔ میں نے اثبات میں سر ہلادیا۔ کہا کیا لوگے؟ میں نے کہا جو آپ دو گے۔ اور پھر میں ایمانداری‘ امانت داری سے اس کے ہاں نوکری کرنے لگا۔ اس کی ٹیکسیوں کی بہت بڑی کمپنی تھی اور اس کی ٹیکسیاں کرائے پر چلتی تھیں۔ میں اس کےگھر ایمانداری سے نوکری کرتا رہا‘ کچھ عرصہ کے بعد اس نے مجھے ٹیکسی کی آمدن کا ذمہ دار بنا دیا۔ میں ترقی کرتے کرتے آخر کار اس کے سارے کاروبار (جو کہ لاکھوں کروڑوں ریال میں پھیلا ہوا تھا) کا ڈائریکٹر بن گیا۔وہ بوڑھا ہوگیا‘ اولاد جوان ہوگئی‘ اس نے مجھے اولاد کے تابع نہیں کیا بلکہ مجھے اولاد کا بڑا بنایا اور سب کو میرے تابع کیا کہ ان کی تربیت کرو‘ بس وہ صفائی تھی اور سلیقہ تھا جس نے مجھ غریب آدمی کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔ آئیے! ہم اپنی ذمہ داری کو سنبھالیں جب سے اپنی ذمہ داریاں بھولے ہیں‘ سوچوں میں فتور اور الفاظ میں شکوہ آگیا ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں